خوابوں سے کریں کیسے وہ دل شاد مسلسل
تعبیر جنہیں کرتی ہے برباد مسلسل
لاحق ہے مری زیست کو تشویش مسلسل
میں قید مسلسل ہوں یا آزاد مسلسل
یہ بستیاں دل کی ہیں عجب حوصلوں والی
امیدِ مسلسل سے ہیں آباد مسلسل
ڈھونڈے ہے نظر تیری فقظ ایک اسی کو
نظروں میں رہا جس کی تو بے داد مسلسل
وآپس نہیں آیا جو بھی اک بار گیا ہے
بس چہرے بدلتی ہے یہ روداد مسلسل
بکھرے ہوئے پتے ہیں بہاروں کی علامت
خوش فہمی نئی کرتا ہوں ایجاد مسلسل
اب ڈھائے ستم وقت کہ پھر جان سکوں میں
کچھ موم ہوا ہوں یا ہوں فولاد مسلسل
باتوں میں سبق ان کی بھی ہے نرم دلی کا
سوچوں میں بسے جن کے ہیں جلاد مسلسل
تنکا بھی نہ توڑا ہے کجا دودھ کی نہریں
اور خود کو سمجھ بیٹھے ہیں فرہاد مسلسل
کیوں آج بیاں ان کا ہے دنیا کی زباں پر
رتبہ کی وجہ جن کے ہیں اجداد مسلسل
ناپُرساں یونہی شہر یہ بگڑے گا مسلسل
جب تک کوئی بدلے گا نہ بنیاد مسلسل
پتھر ہیں ترے گرد یہ انسان نہیں ہیں
ابرک نہ کئے جا تو یوں فریاد مسلسل

No comments: