غمیحیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے او دنیا سے جا رہا ہے کوئی
کوئی ازل سے کہ دو کے روک جائے دو گھڑی
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی
وو اس ناز سے بیٹھے ہیں لاش کے پاس
جیسے روٹھے ہوئے کو مانا رہا ہے کوئی
پلٹ کر نہ آ جانے پھر سانس نبضوں میں
اتنے حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی
احمد فراز
No comments: