سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہے : Ahmad Faraz Poetry



سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہے 


سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں 





سنا ہیں ربط ہے اسکو خراب ہالوں سے 


سو اپنے آپ کو برباد کرکے دیکھتے ہیں 





سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمناز اسکی 


سو ہم بھی اسکی گلی سی گزر کر دیکھتے ہیں 





سنا ہے اسکو بھی ہے شیئروشعاری  سی شغف 


سو ہم بھی مواجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں 





سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے 


ستارے بامےفلک  سے اتر کر دیکھتے ہیں 





سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں 


سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہے



سنا ہے حشر ہیں اسکی غزل سی آنکھیں

سنا ہے اسکو ہرن داشت بھر کے دیکھتے ہیں



سنا ہے اسکی سیاہ چشمگی قیامت ہے

سو اسکو سرما فروش آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں



سنا ہیں اسکے لبوں سے گلاب جلتے ہیں

سو ہم بہارہ پی الزام دھر کے دیکھتے ہیں



سنا ہے ینا تمثیل ہے جبیں اسکی

جو سادہ دل ہے اسے بنسنوار کے دیکھتے ہیں



سنا ہے اسکے بدن کی تراش ایسے ہیں

کے پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں



سنا ہے اسکی شبستان سے متصل ہے بہشت

مکین ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں



روکے ٹوہ گردشیں اسکا طواف کرتی ہیں

چلے تو اسکو زمانہ ٹھہر کے دیکھتے ہیں



کہانتا ہے سہی سب مبالغے ہے سہی

اگر وہ خواب ہے تو تعبیر کر کے دیکھتے ہیں



اب اسکے شیر میں ٹھہریں کے کوچ کر جایئں

فراز' اوو ستارے سفر کے دیکھتے ہیں '






Ahmad Faraz









سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہے : Ahmad Faraz Poetry سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہے  : Ahmad Faraz Poetry Reviewed by Aamir Rana on 9:00 AM Rating: 5

No comments:

ads 728x90 B
Powered by Blogger.